مدارس کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، خصوصاً ان لوگوں کی جانب سے جو دنیاوی تعلیم یافتہ ہیں اور دینی علوم کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ایک عمومی اعتراض یہ ہوتا ہے کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء “زکوٰۃ” اور “خیرات” پر پلتے ہیں اور جب وہ تعلیم مکمل کر کے نکلتے ہیں، تو ان میں شدت پسندی، تعصب اور بد اخلاقی پیدا ہو چکی ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ بات درست ہے؟ اور اگر کسی ایک یا چند طلباء میں یہ منفی رویے پائے جاتے ہیں، تو کیا پورے مدرسے اور نظامِ تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟
مدارس کی تربیت اور دنیاوی نظامِ تعلیم:
مدارس کا مقصد نہ صرف علم دینا ہے، بلکہ طلباء کی تربیت کرنا بھی ہے۔ ایک مدرسے سے تعلیم یافتہ طالب علم اپنے والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا، بلکہ ان کی خدمت کرتا ہے، دعا مانگتا ہے، اور جب والدین کا انتقال ہو جاتا ہے، تو وہ انہیں غسل دینے، کفن دفن کرنے، اور جنازہ پڑھانے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ وہی طالب علم ہے جو ایصال ثواب کے لیے تلاوت کرتا ہے اور اپنے والدین کی بخشش کے لیے دعائیں کرتا ہے۔
دوسری طرف، وہ دنیاوی تعلیم یافتہ شخص جو لاکھوں روپے فیس دے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے، جب اپنے والد کی قبر پر جاتا ہے، تو وہ اپنی ڈگری ہاتھ میں لیے کہتا ہے: “ابو، آپ نے یہی ڈگری دلوائی تھی، اور بس میرے پاس یہی ہے۔” کیا یہ ڈگری اس کے والد کے لیے کوئی نفع پہنچا سکتی ہے؟ وہ نہ تو قرآن کی تلاوت کر سکتا ہے، نہ دعا کر سکتا ہے، اور نہ ہی جنازہ پڑھانے کے قابل ہوتا ہے۔
تربیت کی کمی اور تنقید:
مدارس میں تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے، اور اگر کسی جگہ کچھ طلباء میں منفی رویے پیدا ہو جاتے ہیں، تو یہ انفرادی کمزوری ہو سکتی ہے، نہ کہ پورے نظام کی ناکامی۔ دنیاوی اداروں میں جہاں لاکھوں روپے خرچ کر کے تعلیم دی جاتی ہے، وہاں تربیت کا کیا حال ہے؟ ہمیں ایسے بہت سے افراد ملتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے اخلاق و کردار میں کمی رکھتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، اور معاشرتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
کیا یہ مناسب ہے کہ چند افراد کی غلطیوں کی بنیاد پر پورے مدرسے یا نظامِ تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ناک پر مکھی بیٹھنے پر ناک کو نہیں کاٹا جاتا، بلکہ مکھی کو اڑایا جاتا ہے۔ اسی طرح، اگر کسی مدرسے میں ایک یا چند طلباء میں منفی رویے پائے جائیں، تو انفرادی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ پورے نظام کو قصوروار ٹھہرایا جائے۔
مدارس اور دنیاوی تعلیم کا متوازن نظریہ:
ہم دنیاوی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں۔ اس دور میں دنیاوی تعلیم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔ جدید دور کی ضروریات کو سمجھنا اور دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے۔ اگر آپ صرف دنیاوی تعلیم حاصل کر کے دین کو پس پشت ڈال دیں، تو یہ ایک نامکمل طرزِ زندگی ہوگا۔
مدارس پر تنقید کرنے والے افراد اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ دین کے بغیر دنیاوی کامیابیاں حقیقی معنوں میں فائدہ مند نہیں ہوتیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیاوی تعلیم نہ حاصل کریں، بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ دونوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ دینی تعلیم آپ کی روح کی تربیت کرتی ہے، جبکہ دنیاوی تعلیم آپ کو اس دنیا کے معاملات سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
مدارس کی اہمیت اور معاشرتی خدمات:
جب ہم پیدا ہوتے ہیں، تو سب سے پہلے ایک دینی عالم ہمارے کان میں اذان دیتا ہے۔ ہماری شادی ہوتی ہے، کوئی مولوی صاحب نکاح پڑھاتے ہیں۔ زندگی کے ہزاروں مواقع پر ہم دینی علماء کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہمارا انتقال ہو جاتا ہے، تو ہماری نمازِ جنازہ بھی ایک عالمِ دین پڑھاتا ہے۔ اس کے باوجود، ہم انہی مدارس پر تنقید کرتے ہیں جہاں سے یہ علماء پیدا ہوتے ہیں۔
مدارس کی تعلیم نہ صرف طلباء کو دینی علوم سے آراستہ کرتی ہے، بلکہ انہیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کے راستے دکھاتی ہے۔ کیا یہ وہی طلباء نہیں ہیں جو ہماری زندگی کے ہر اہم موقع پر ہمارے ساتھ ہوتے ہیں؟ وہ طلباء جو “زکوٰۃ” اور “خیرات” پر پل کر علم حاصل کرتے ہیں، ہمارے لیے دین کا پیغام پہنچانے والے ہوتے ہیں۔
نتیجہ:
دنیاوی تعلیم اور دینی تعلیم دونوں کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم کسی ایک کو نظر انداز کر کے دوسرے پر تنقید نہ کریں۔ اگر کسی مدرسے میں یا کسی طالب علم میں کمی پائی جاتی ہے، تو اسے نظام کی ناکامی نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اس کی انفرادی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے۔ دنیاوی تعلیم اور دینی علم کا حسین امتزاج ہی ہماری کامیابی کا ضامن ہو سکتا ہے۔
سوچئے:
کامیاب کون ہوا؟ وہ جو دنیاوی ڈگری کے ساتھ قبر پر آیا اور آخرت میں خالی ہاتھ ہے؟ یا وہ جس کے پاس قرآن کا علم ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہے؟
از ابو عمار سید زوار حسین بخاری
بانی و مہتمم ادارہ معرفۃ القران
بتاریخ 16 اکتوبر بروز بدھ
No comment